عاجزی اور حکمت کی پہچان/islamic Urdu kahaniyan

عاجزی اور حکمت کی پہچان/islamic Urdu kahaniyan 

عاجزی اور حکمت کی پہچان

ایک بہت بڑے شہر میں ایک نامور استاد رہتے تھے جن کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اپنے علم اور حکمت کے لیے جانے جاتے تھے۔ بہت سے شاگرد ان سے علم حاصل کرنے آتے تھے۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک، طارق، ذہین تھا لیکن اس میں تھوڑا غرور اور اپنی قابلیت پر زیادہ اعتماد تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اس نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔

ایک دن، استاد نے طارق کو اپنے پاس بلایا اور کہا، "طارق، میں چاہتا ہوں کہ تم شہر سے باہر جاؤ اور مجھے ایک ایسا انسان ڈھونڈ کر لاؤ جو سب سے زیادہ عاجز اور حکمت والا ہو۔"

طارق فوراً تیار ہو گیا۔ اس نے سوچا، "یہ تو بہت آسان کام ہے۔ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو سادہ اور نیک ہیں۔" وہ شہر سے باہر نکلا اور کئی دن تک سفر کرتا رہا۔ وہ مختلف لوگوں سے ملا - غریب کسانوں سے، نیک عبادت گزاروں سے، اور یہاں تک کہ بظاہر سادہ لوگوں سے بھی۔ ہر ایک سے ملنے کے بعد، اسے لگتا کہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہے جو ان کی عاجزی کو مکمل نہیں کرتی یا ان کی حکمت کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ نہیں ملتا۔

طارق نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو اپنے علم اور نیکی کا ذکر کرتے تھے، یا جو یہ جتاتے تھے کہ وہ بہت عاجز ہیں۔ لیکن جب طارق ان سے مزید سوالات کرتا، تو انہیں اپنے علم یا اچھائی پر ذرا سا بھی فخر نظر آتا۔

کئی دن کی تلاش کے بعد، طارق مایوس ہونے لگا۔ وہ تھک ہار کر واپس اپنے استاد کے پاس آیا۔ استاد نے مسکراتے ہوئے پوچھا، "کیا تم نے کسی ایسے شخص کو پایا جو سب سے زیادہ عاجز اور حکمت والا ہو؟"

طارق نے افسردگی سے سر جھکا لیا اور بولا، "استاد محترم، میں نے بہت کوشش کی، بہت لوگوں سے ملا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو آپ کے معیار پر پورا اترے۔ ہر ایک میں مجھے کسی نہ کسی حد تک غرور یا اپنے علم پر فخر محسوس ہوا۔"

استاد نے نرمی سے طارق کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، "طارق، تم نے سب سے عاجز اور حکمت والے شخص کو ڈھونڈ لیا ہے۔"

طارق حیران ہو کر بولا، "کون، استاد جی؟ مجھے تو کوئی نہیں ملا۔"

استاد نے مسکراتے ہوئے کہا، "وہ شخص تم خود ہو، طارق۔"

طارق اور بھی حیران ہوا، "میں؟ لیکن میں تو اپنی تلاش میں ناکام رہا۔"

استاد نے وضاحت کی، "جب تم نے یہ محسوس کیا کہ تمہیں کوئی بھی مکمل عاجز اور حکمت والا شخص نہیں ملا، اور تم نے اپنی اس ناکامی کو قبول کر لیا، تو یہی تمہاری سب سے بڑی عاجزی تھی۔ تم نے اپنے سفر کے بعد یہ اقرار کیا کہ تم ابھی تک حقیقی عاجزی کو نہیں سمجھ پائے، اور یہ کہ تمہارا علم ابھی کم ہے۔ ایک حکمت والا شخص کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اسے سب کچھ آتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم سمجھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ علم کی کوئی انتہا نہیں۔"

طارق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔ اسے سمجھ آگیا کہ حقیقی عاجزی اپنی کم علمی اور خامیوں کا اقرار کرنا ہے، اور حقیقی حکمت یہ جاننا ہے کہ علم کا سمندر بہت گہرا ہے اور انسان اس میں صرف چند قطرے ہی جمع کر پاتا ہے۔

سبق (Moral Lesson)

اس کہانی سے ہمیں یہ اہم سبق ملتے ہیں:

 * حقیقی عاجزی: حقیقی عاجزی یہ نہیں کہ ہم صرف عاجزی کا دکھاوا کریں، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی خامیوں، کمزوریوں، اور محدود علم کا اقرار ہو۔ جو شخص خود کو مکمل نہیں سمجھتا، وہی سب سے عاجز ہوتا ہے۔

 * علم اور حکمت: حقیقی علم اور حکمت کے ساتھ غرور یا تکبر نہیں ہوتا۔ جتنا زیادہ علم ہوتا ہے، اتنی ہی زیادہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی کتنا کچھ جاننا باقی ہے۔

 * خود احتسابی: اپنے آپ کا جائزہ لینا اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اخلاقی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

کیا آپ کوئی اور سبق آموز کہانی سننا پسند کریں گے؟


Comments

Popular posts from this blog

اسلامی اردو کہانی: سچائی کی برکت

ایمانداری کا پھل/islamic Urdu kahaniyan